اردوئے معلیٰ

Search
کسی بھی ادارے کی ترقی کے لئے نظم و نسق ،انتظام اور انتظامیہ نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے ادارہ ادب بھی اس اصول سے خارج نہیں ہمارے ہاں موجودہ صدی میں یہ بات اب عام مشاہدہ میں ہے کہ نسل نو کتاب بینی سے جی چراتی اور دور بھاگتی ہے نتیجتا مطالعے کی کمی معلومات کے فقدان کا باعث بنی ہوئی ہے ۔
 
اس کے علاوہ بھی بہت سے حوالاجات ایسے ہیں جو کتب سے دوری کے سبب موجودہ نسل کے مزاج کا حصہ بن چکے ہیں جن میں فکری سوچ اور مشاہدے کی کمزوری سر فہرست ہے ۔اردو ادب پر اس کے بڑے دور رس منفی اثرات مرتب ہونے کا احتمال ہے اس رجحان کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں بنا تحقیق کے قلم کا بے دریغ استعمال عام بات بن چکا ہے جن لوگوں کو ابھی سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے افسانہ و ناول کی صنف میں جوہر دیکھا رہے ہیں جس کے باعث نہایت سطحی ادب تخلیق پا رہا ہے نیز مختصر کہانی جس میں پچاس لفظی و تیس لفظی جیسی بےسروپا کہانیوں کا رواج فروغ پا رہا ہے ۔اگر پوچھا جاۓ کہ جدید افسانہ کیا ہے ؟ وہ تخلیقی انداز کون سے ہیں جس کی حمایت شمس الرحمن فاروقی نے کی اور ابتدا میں گوپی چند نارنگ کرتے رہے تو شاید نسل نو میں بیشتر ان ناموں سے بھی واقف نہ ہوں ۔پریم چند ، سعادت حسین منٹو ، عصمت چغتائی ، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، قراة العین حیدر اور انتظار حسین بیسویں صدی کے نامور افسانہ نگار ہیں لیکن اکثر و بیشتر موجودہ دور کے نومولود قلم کار منٹو اور عصمت کے ادب کو جو جدید افسانہ کامعمار رہا اور جس نے اردو ادب میں مقصدی و تجریدی افسانہ کی داغ بیل ڈالی اپنے غیر مطالعہ و سطحی اذہان کے باعث تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں اور دلیل میں جانب داری سے کام لیتے ہیں ۔ جبکہ پریم چند ، سعادت حسین منٹو اور بیدی کے لئے عظیم افسانہ نگار کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے ۔ علی عباس حسنی ،حیات اللہ‎ انصاری، اؤ پندار ناتھ اشک ،احمد ندیم قاسمی ،غلام عباس، بلونت سنگھ اور ممتاز مفتی جیسے عظیم افسانہ نگاروں کے شاندار تخلیقی کارناموں سے اردو ادب کی بزم سجی ہوئی ہے جو عصمت اور منٹو جیسے نامور افسانہ نگاروں کے معاصرین رہے اور ان سب نے مل کر اردو افسانے کو بیسویں صدی میں وہ وقار عطا کیا جو آج ابھی اردو افسانے کی عصمت کا سبب بنا ہوا ہے۔
 
بیسویں صدی کے منٹو کا دور اردو ادب میں افسانے کاسنہری دور تھا جس میں افسانے پر کئی کامیاب تجربے کئے گئے ۔جس نے افسانہ نگاری کو ندرت اور تخلیقی تجربہ عطا کیا ۔مذکورہ بلا تمام افسانہ نگار بیسویں صدی میں اردو افسانے کی تاریخ اور ڈسکورس کا اہم حصہ ہیں ۔ ان میں سے بیشتر کا نام ترقی پسند تحریک ،ما رکسی نظریات اور ترقی پسند نظریات کی حامل ادبی شخصیات کے ساتھ وابستہ ملتا ہے ہمارے ہاں 1930 سے 1940 تک کے عہد کو ترقی پسند ادب کا دور کہا جاتا ہے اور پھر چالیس کے بعد 1950 تک کا دور جدیدیت کا دور گردانا جاتا ہے ۔
 
یہ تقسیم تنقید لکھنے والوں کا کارنامہ ہے ترقی پسند افسانوں اور جدیدیت کے حامل افسانوں میں فنی اور فکری لحاظ سے تنوع پایا جاتا ہے جو اپنے اپنے دور کی معاشرتی فضا اور ضروریات کے تحت مختلف مقصد کے حامل تھے ۔اکثر یہ کہنا کے موجودہ دور میں منٹو کا سا طرز تحریر افسانوں میں کیوں نہیں اپنایا جاتا تو اس کا سادہ جواب تخلیقی سوچ کا فقدان اور تجرباتی طور پر منقود ادب ہے اس کے علاوہ جو تجرباتی اسلوب تحریر و انداز اسلاف نے اختیار کیا ہم مکمل طور پر ان حالات کا اب شکار یا آئینہ دار نہیں ہیں جو اس وقت کے منٹو کو درپیش تھے گو کے اب بھی منٹو جیسی تخلیقات چیدہ چیدہ نظروں سے گزرتی ہیں لیکن گزشتہ کے مقابلے میں معیار نہایت پسماندہ ہے۔
 
ادب حالات کا پیش خیمہ ہوتا ہے جیسا معاشرہ ویسا ادب وجود میں آتا ہے اسلاف کے کارناموں کو فرسودہ قرار دے کر کسی صورت مسترد نہیں کیا جاسکتا اور نہ بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے اس سلسلے میں تحقیق و مشاہدے کو جلا بخشنے کی ضرورت ہے 1955 میں منٹو کی موت ہوئی منٹو ترقی پسند افسانہ نگار نہیں تھا لیکن ترقی پسند تحریک کے تمام بڑے افسانہ نگار اور وہ افسانہ نگار جن کا شمار جدیدیت سے منسوب افسانہ نگاروں میں نہیں ہوتا منٹو کی عصمت و تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے رہے ۔یہاں یہ بات واضع کر دینا ضروری ہے کہ اپنی روایت کے بنیادی تہذیبی حوالوں پر اصرار کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم تہذیب کے عالمی تصور سے دست بردار ہو گئے ہیں نہ تو مقامیت آفاقیت کی ضد ہوتی ہے نہ ہی انفرادیت بین الاقوامیت کو مسترد کرتی ہے اس بیان کی روشنی میں منٹو کی حقیقت نگاری ان کی بےباکی کے باوجود مقامیت اور بنیادی تہذیبی حوالوں سے عبارت ہے ۔یہ کہنا کسی طور غلط نہ ہو گا کہ جدید اردو افسانے کی ابتدا کے زیادہ واضع نشانات اور مضمرات سعادت حسین منٹو کے افسانے بلخصوص "پھندنے” اور ‘بو” میں نظر آتے ہیں ان افسانوں میں سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کو جس عمدگی سے فن کے تقاضوں سے آمیز کیا گیا بعد میں اس سے آگے بڑھنا تو کجا اس معیار کو برقرار بھی نہ رکھا جاسکا اور موجودہ دور میں اس طرف کوئی رجحان بھی نہیں کیونکہ خارجی تقاضوں اور فارمولا رومانیت و جذباتیت نیز مشاہدے سے انحراف و قلیل مطالعے نے دور جدید میں کہانی کو نقصان پہنچایا ہے ۔جو مقلدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔
 
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ دور میں افسانہ کی اہمیت کیا ہے ؟ اس کی روایت کیا ہے ؟ موجودہ افسانہ روایات کی توسیع کرتا ہے یا ان سے متصادم ہے ؟ ان سوالات سے اکیسویں صدی کے افسانہ نگار و تنقید نگار نبرد آزما ہیں یقینا یہ سوالات بیسویں صدی کے افسانہ نگاروں و تنقید نگاروں کے لئے اہم نہیں ہونگے لیکن موجودہ دور میں اردو ادب جس تنزلی کا شکار ہے ادبا کے لئے یہ سوالات نہایت اہمیت اختیار کر گئے ہیں موجودہ دور میں قاری کی طرح قلم کار بھی تقسیم ہو گئے ہیں سطحی ادب سطحی و بنا تحقیقی معلومات اذہان میں انڈیل رہا ہے جو زبان و ادب کے لئے زہر قاتل ہے ۔ہم افسانے کے حسن کو مسخ کر رہے ہیں”
 
جو حسن ہمیں بیسویں صدی کے افسانے میں ملتا تھا جہاں نہ نصیحت تھی نہ غیر ضروی جذباتیت نہ تقریر نہ مشورہ بازی کا کوئی چلن بلکہ زندگی اپنی زیادہ برہنہ صورت میں ہمارے سامنے آتی تھی ۔یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیوں منٹو کا افسانہ موجودہ افسانے سے زیادہ فطری تھا چونکہ اب بہت وقت گزر گیا ہے اس لئے اکیسویں صدی کاقاری یہ پوچھ سکتا ہے منٹو جیسی سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کو فن کے تقاضوں سے آمیز کرنے کے لئے کتنے افسانے لکھنے ہونگے اور یہ ہمت کب پیدا کی جاۓ گی ؟ موجودہ افسانہ نگاری اس کھلنڈرے پن اور طراری سے کب تک محروم رہے گی جو افسانے کی آبرو کو رنگ و آہنگ بخشتی ہے ؟ ہم سے نہ” بو” لکھا گیا نہ ‘لحاف ” ہمارا افسانہ انشائیہ بن کر رہ گیا ہے جس میں زندگی نہیں شخصیت پیش پیش ہوتی ہے ۔
 
اس وقت جدید افسانہ کیا کر رہا ہے ؟ کیا "کفن’ "لحاف” "بو” "پھندنے” جیسا مزین ، پرکشش اور انسانی روح میں سرایت کر جانے والا افسانہ ختم ہو گیا ہے ؟کیا نسل نو سے یہ امید کی جا سکتی ہے جو افسانے کی اصل روح تک سے آگاہ نہیں کہ ایسے تخلیقی شاہکار اب تصنیف پا سکیں گے ؟ کیا واقعی اب ترقی پسند تحریک ختم ہو چکی ہے ؟ اور ترقی پسند نظریات ادب سے معدوم ہو چکے ہیں ؟
 
موجودہ قلم کار کے لئے سماجی کمٹ منٹ اور افسانے کی ہیت پرستی کوئی اہمیت رکھتی ہے ؟ کیا بیسویں صدی کے افسانہ نگاروں کا مطالعہ ان کے میلانات و موضوعات فنی اسالیب و تنقیدی نظریات موجودہ دور کے قاری کے لئے اہم نہیں ہیں ؟ کیا موجودہ دور میں کوئی بھی قلم کار بنا تحقیق و نظریاتی سوچ کے معاشرتی ادبی تحریک کا نمائندہ ادب تخلیق کر سکتا ہے ؟
 
اکیسویں صدی میں تہذیبی تصادم کے باعث موجودہ معاشرہ بے شمار تہذیبی سیاسی تمدنی اور وجودی کرائسس کا شکار ہوتا جارہا ہے دوسری طرف اردو میں جدیدیت سے منسوب ادبی رجحان ایک مہین بے جان نحیف لکیر میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے ۔آج ان افسانہ نگاروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے جو ہیت ،چستان اور نثری نظم کو خالص افسانہ قرار دیتے ہیں دوسری طرف مابعد جدیدیت بطور ایک نئے رجحان تھیوری اور سماجی ڈسکورس کے نئے مباحث سامنے لا کر جدیدیت کی نحیف لکیر کو کالعدم قرار دے رہی ہے آج کا قاری جدیدیت کے چستان کو رد کرتا ہے اور زندگی اور اسکی ذات سے وابستہ فکشن پڑھنا چاہتا ہے خواہ پھر وہ علامتی ہو بیانیہ ،تمثیلی روایتی یا غیر روایتی پلاٹ میں تحریر کیا گیا ہو اصل چیز تو افسانہ ہے کہانی ہے ، پیش کش ہے۔
 
موجودہ دور میں ادیب کو غیر ضروری رومنانیت، فارمولا بازی ،سطحیت اور نظریات کی اشتہاریت سے بچنے کی ضرورت ہے نیز ادب کا رشتہ سماج ،معاشرتی تاریخ ، نسلی اثرات اور اجتماعی شعور سے جوڑنے کی ضرورت ہے ۔اکیسویں صدی کا افسانہ مذکورہ بالا ادبی تجربات ہی کی روشنی میں فن کاری کی مثبت اقدار سے مزین ہو سکتا ہے ۔
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ