غریقِ ظلمتِ عصیاں ہے بال بال حضور

نگاہِ لطف کا طالب ہے حال حال حضور

حرائے جاں میں کبھی روئے والضُّحٰی چمکے

ہوا ہے جادۂ ہستی یہ ضال ضال حضور

حیات قہر ہوئی زندگی وبال بنی

خزاں نے جھاڑ دی ہو جیسے ڈال ڈال حضور

ہوئی وہ اُمّتِ عاصی پہ ظلم کی یورش

سسک سسک کے نکلتا ہے سال سال حضور

کریں جو اشکِ ندامت سے پھر وضو اکثر

ہوئے ہیں ایسے مصلّی تو خال خال حضور

مجھے یقین ہے اک دن یہ حال بدلے گا

ہے لب پہ وردِ علی دل میں آل آل حضور

کرم سے آپ کے شاہا ظفر سلام بہ لب

درود مست ہے دل کی یہ تال تال حضور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]