اردوئے معلیٰ

غریقِ ظلمتِ عصیاں ہے بال بال حضور

نگاہِ لطف کا طالب ہے حال حال حضور

 

حرائے جاں میں کبھی روئے والضُّحٰی چمکے

ہوا ہے جادۂ ہستی یہ ضال ضال حضور

 

حیات قہر ہوئی زندگی وبال بنی

خزاں نے جھاڑ دی ہو جیسے ڈال ڈال حضور

 

ہوئی وہ اُمّتِ عاصی پہ ظلم کی یورش

سسک سسک کے نکلتا ہے سال سال حضور

 

کریں جو اشکِ ندامت سے پھر وضو اکثر

ہوئے ہیں ایسے مصلّی تو خال خال حضور

 

مجھے یقین ہے اک دن یہ حال بدلے گا

ہے لب پہ وردِ علی دل میں آل آل حضور

 

کرم سے آپ کے شاہا ظفر سلام بہ لب

درود مست ہے دل کی یہ تال تال حضور

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ