غم حسین میں دامن بھگائے جاتے ہیں

ہمیشہ خون کے آنسو بہائے جاتے ہیں

بجھا بجھا کے وہ خود اپنی زندگی کے دیے

چراغ حق و صداقت جلائے جاتے ہیں

یہی ہے رسم محبت ازل سے تا امروز

جو حق پرست ہیں وہ آزمائے جاتے ہیں

نہ داغ آئے شریعت کے پاک دامن پر

اسی لیے وہ لہو میں نہائے جاتے ہیں

نہ دیکھی جائے گی اسلام تیری رسوائی

یہ کہہ کے اپنا وہ سب کچھ لٹائے جاتے ہیں

حسین ہیں اسی گھر کے چراغ جس گھر کے

مکین سدرہ بھی درباں بنائے جاتے ہیں

زمانہ دیکھ کے حیراں ہے اسکی عظمت کو

رسول دوش پہ جسکو بٹھائے جاتے ہیں

حسین مجھ سے ہیں میں ہوں حسین سے کہہ کر

رسول انکی فضیلت بتائے جاتے ہیں

عجب تو یہ ہے جو امن واماں کے ہیں ضامن

ہزاروں ظلم و ستم ان پہ ڈھائے جاتے ہیں

تم انکا ذکر کرو ہم بھی اپنی پلکوں پر

انھیں کی یاد کے موتی سجائے جاتے ہیں

یزید نام کا اک بچہ بھی نہ پاؤ گے

مگر حسین تو گھر گھر میں پائے جاتے ہیں

اٹھا کے ہاتھ میں عزم حسین کا پرچم

’’ حسین والے زمانے میں چھائے جاتے ہیں ‘‘

یہ نورؔ انکا کلیجہ تھا ظلم سہہ سہہ کر

غموں کے سیل میں بھی مسکرائے جاتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]