غم کا لاوا اُف پگھلتا ہی رہا

دل ہمارا اس سے جلتا ہی رہا

آفتابِ عمر ڈھلتا ہی رہا

کاروانِ شوق چلتا ہی رہا

بارِ غم اس کو کچلتا ہی رہا

دل کا کس بل اُف نکلتا ہی رہا

سحر ان آنکھوں میں ڈھلتا ہی رہا

کاروبارِ عشق چلتا ہی رہا

زندگی کی رات کتنی تھی کٹھن

رات بھر پہلو بدلتا ہی رہا

برق وَش آیا گیا دورِ شباب

اور انساں ہاتھ ملتا ہی رہا

حسن کا پندار اونچا ہے مگر

عشق کے سانچوں میں ڈھلتا ہی رہا

ساقی و پیرِ مُغاں بدلا کیے

دورِ ساغر تھا کہ چلتا ہی رہا

جس بلندی سے گرا تھا میں نظرؔ

پھر نہ پہنچا گرچہ چلتا ہی رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]