فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں ، بے سہارا نہیں

خود اُنھی کو پُکاریں گے ہم دُور سے ، راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے

جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا ، بندگی کا قرینہ بدل جائے گا

سر جُھکانے کی فُرصت ملے گی کِسے ، خُود ہی پلکوں سے سجدے ٹپک جائیں گے

ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے اور گلیوں میں قصدا بھٹک جائیں گے

ہم وہاں جا کے واپس نہیں آئیں گے ، ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے

نام ان کا جہاں بھی لیا جائے گا ، ذکر اُن کا جہاں بھی کیا جائے گا

نُور ہی نُور سینوں میں بھر جائے گا ، ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے

اے مدینے کے زائر خُدا کے لیے ، داستانِ سفر مُجھ کو یوں مت سُنا

دل تڑپ جائے گا بات بڑھ جائے گی میرے محتاط آنسُو چھلک جائیں گے

اُن کی چشمِ کرم کو ہے اس کی خبر کس مُسافر کو ہے کتنا شوقِ سفر

ہم کو اقبال جب بھی اجازت ملی ، ہم بھی آقا کے دربار تک جائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]