فتنہ زا فکر ہر اک دل سے نکال اچھا ہے

آئے گر حسنِ خیال، اس کو سنبھال اچھا ہے

میرے احساسِ خودی پر نہ کوئی زد آئے

تو جو دے دے مجھے بے حرف سوال اچھا ہے

آپ مانیں نہ برا گر، تو کہوں اے ناصح

صاحبِ قال سے تو صاحبِ حال اچھا ہے

بے خیالی نہ رہے، خام خیالی سے بچوں

دل میں بس جائے جو ان کا ہی خیال اچھا ہے

تیرے رخ پر ہو مسرت، تو مرا دل مسرور

تیرے چہرے پہ نہ ہو گردِ ملال اچھا ہے

پرسشِ غم بھی نہیں نیز ملاقات نہیں

آپ کو ہم سے غریبوں کا خیال اچھا ہے

کوئی کہتا ہے مبارک ہو تجھے دورِ فراق

میں سمجھتا ہوں مگر روزِ وصال اچھا ہے

ملک گیری کی ہوس میں ہو تو فتنہ خود ہی

اور فتنہ کو مٹائے تو قتال اچھا ہے

بے نیازِ غمِ عقبیٰ جو نظرؔ تجھ کو کرے

آل و اولاد وہ اچھی، نہ وہ مال اچھا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]