فلک سے خوشبو بکھر رہی ہے، زمیں کا چہرہ دمک رہا ہے

سحر نمودار ہو رہی ہے، نقاب رُخ سے سِرک رہا ہے

تری ولادت سے ریگ صحرا کا ذرہ ذرہ چمک رہا ہے

قلم قصیدہ سُنا رہا ہے، سُخن کا طائر چمک رہا ہے

بصارتوں کو ملی بصیرت، نبی کی صورت تمام رحمت

احد کے شفاف آئینے میں، وہ نور احمد دمک رہا ہے

کرم خدا کا ہماری قسمت، وہ نور بن کر کچھ ایسے آئے

کہ دشت و گلشن کا ذرہ ذرہ، مہک رہا ہے مہک رہا ہے

کلی کلی مسکرا رہی ہے، عرب کا صحرا چمن چمن ہے

وفور اُلفت میں نور یزداں، زمیں کی جانب لپک رہا ہے

نفس نفس میں ہے اُس کا نغمہ، نظر نظر میں ہے اُس کا جلوہ

ہماری آنکھوں کی پُتلیوں میں، وہ نور بن کر دمک رہا ہے

وہ جان ہستی اگر نہ ہوتے، نہ باغ ہوتے، نہ پھول کھلتے

اُسی کی خاطر جہاں بنا ہے، وہ گلؔ جہاں میں مہک رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]