قافلے یا راستے یا نقش ِ پا کچھ بھی نہیں

قافلے یا راستے یا نقشِ پا کچھ بھی نہیں

کُرہِ آتش پہ آتش کے سوا کچھ بھی نہیں

کیوں اُلٹ دیجے نہ آخر عمر کی زنبیل کو

یوں بھی اس کمبخت میں باقی رہا کچھ بھی نہیں

جس کو چھُوتا ہے اُسے پتھر بنا دیتا ہے دل

اور اس کے لمسِ قاتل سے بچا کچھ بھی نہیں

کیا تہی دامانی ِ امید ہی مقسوم ہے ؟

اب برائے کاسہِ امکان کیا کچھ بھی نہیں

سر دُھنے جاتے رہے ہیں محض رسماً آج تک

تو سخن ، اسلُوب ، لہجہ یا نوا کچھ بھی نہیں

اتفاقاً چھو لیا ہو گا دلِ بے نُور نے

اس اندھیرے میں وگرنہ سُوجھتا کچھ بھی نہیں

پانچواں عنصر کہاں سے لے کے آئیں ، بے دِلی

جبکہ خاک و آتش و آب و ہوا کچھ بھی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]