قتیلِ درد ہوا میں تو غمگسار آئے

رہی نہ جان سلامت تو جاں نثار آئے

تمہارا غم تھا میسر تو کوئی روگ نہ تھا

چلا گیا وہ مسیحا تو غم ہزار آئے

قبائے کذب و ریا اور کلاہِ نام و نمود
کہیں اُترنے سے پہلے ہی ہم اتار آئے

ہوئی نہ جرات طوفِ حریم عشق ہمیں

بس ایک سنگِ ملامت انا کو مار آئے

اک عرضِ شوق بصد حسرتِ دلِ ناکام

حضورِ ناز میں پہنچے تو پھر گزار آئے

متاعِ فکر و نظر، ثروتِ خیال و خواب

خزانے جتنے میسر تھے اُن پہ وار آئے

ہزار اشکِ محبت بہم ہیں آنکھوں میں

کہاں سے شیشۂ دل پر کوئی غبار آئے

وصالِ یار حقیقت ہے گر تو ختم نہ ہو

اگر یہ خواب ہے کوئی تو بار بار آئے

ذرا سی دولتِ دل تھی ظہیؔر اُسکو بھی

قمار خانۂ الفت میں جا کے ہار آئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]