قرآن کہا جائے نہ تفسیر کہا جائے

ہر فتویِٰ تکفیر کو تقصیر کہا جائے

کس حرفِ طرح دار پہ انگشتِ یقیں رکھیں

کس عکس کو سچائی کی تصویر کہا جائے

کس دستِ مسیحائی پہ بیمار کریں بیعت

جب زہرِ ہلاہل کو بھی اکسیر کہا جائے

معیار بدلتے ہوئے اس دور میں ممکن ہے

اک روز اندھیرے کو بھی تنویر کہا جائے

آداب کو اب فہرسِ بیکار میں لکھ ڈالو

اقدار کو اب پاؤں کی زنجیر کہا جائے

بینائی جنہیں ملتی ہے ہو جاتے ہیں دیوانے

آنکھوں کو مرے عہد میں تعزیر کہا جائے

اشکوں کو ترے نا مۂ اعمال میں لکھوں میں

یا ان کو کسی خواب کی تعبیر کہا جائے

ہجرت ہو کہ ہجراں ہو، غمِ جاں کہ غمِ جاناں

ہر درد کو اُس نام کی جاگیر کہا جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]