قطرہ مانگے جو کوئی تو اسے دریا دے دے

مجھ کو کچھ اور نہ دے اپنی تمنّا دے دے

وہ جو آسودگی چاہیں انہیں آسودہ کر

بے قراری کی لطافت مجھے تنہا دے دے

میں اس اعزاز کے لائق تو نہیں ہوں لیکن

مجھ کو ہمسائیگی گنبدِ خضریٰ دے دے

غم تو اس دور کی تقدیر میں لکھے ہیں بہت

مجھ کو ہر غم سے نمٹ لینے کا یارا دے دے

تب سمیٹوں میں ترے ابرِ کرم کے موتی

میرے دامن کو جو تو وسعتِ صحرا دے دے

تیری رحمت کا یہ اعجاز نہیں تو کیا ہے

قدم اٹھیں تو زمانہ مجھے رستہ دے دے

جب بھی تھک جائے محبت کی مسافت میں ندیمؔ

تب ترا حُسن بڑھے اور سنبھالا دے دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]