قلبِ مضطر کے لیے ایک دَوا کافی

قلبِ مضطر کے لیے ایک دَوا کافی ہے

لب پہ بس صلِّ علیٰ، صلِّ علیٰ کافی ہے

مالکِ کون و مکاں قاسمِ نعمت ہیں جو

ہم فقیروں کے لیے ان کی عَطا کافی ہے

آتے ہی ساری بلائیں مری ٹل جاتی ہیں

اِن بلاؤں کے لیے ماں کی دُعا کافی ہے

حدت حشر کا کچھ خوف نہیں ہے مجھ کو

میرے چھپنے کو شہِ دیں کی ردا کافی ہے

گلشنِ فکر کو مہکانے کی خاطر میرے

شہ کے دربار سے آئے جو ہَوا کافی ہے

کیسے کہہ دوں کہ نہیں میرا جہاں میں کوئی

میری خاطر تو وہ محبوبِ خُدا کافی ہے

کاش کہہ دیں وہ سرِ حشر کہ میرا ہے شکیلؔ

میری بخشش کے لیے ان کا کہا کافی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]