قلب کو بارگہِ شاہ سے لف رکھتا ہوں

اپنی ہر سوچ مدینے کی طرف رکھتا ہوں

اپنے ہر حرف کو دیتا ہوں محامد کا عَلَم

اپنے الفاظ کو انوار بکف رکھتا ہوں

دو کریموں سے ہی امیدِ کرم ہے ورنہ

فردِ اعمال میں بے فیض خذف رکھتا ہوں

کچھ تو ہو سنگِ درِ جانِ دو عالم کے لئے

گوہر اشک بہ اندازِ صدف رکھتا ہوں

میری مرقد سے بھی آئے گی گُلابوں کی مہک

کیونکہ میں دل کو طلب گارِ نجف رکھتا ہوں

خُوش مقدر ہوں نوازا ہے بہت آقا نے

ان کی چوکھٹ پہ حضُوری کا شرف رکھتا ہوں

گُن نہیں کوئی بھی اشفاقؔ سوائے اس کے

مدحتِ سرورِ عالم کا شغف رکھتا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]