لا الٰہ دل نشیں دو حرفِ سادہ کیجیے

کہہ کے الا اللہ پھر سب کا اعادہ کیجیے

پیشِ مہماں کس طرح سے آبِ سادہ کیجیے

شیخ محفل میں ہیں آئے پیش بادہ کیجیے

ہیں صریحاً ازدیادِ رنج و غم کا یہ سبب

آپ سے کس نے کہا، ارماں زیادہ کیجیے

بادۂ وحدت ہے صاحب سَمِّ قاتل تو نہیں

پی نہیں اب تک تو پینے کا ارادہ کیجیے

جائیے شہرِ خموشاں درسِ عبرت کے لیے

مرنے والوں سے بھی گاہے استفادہ کیجیے

منزلِ علم و عمل سر کیجیے گا بعد میں

آپ اپنے دل میں پہلے کچھ ارادہ کیجیے

آپ کی منزل ہے واقع بر صراطِ مستقیم

خود ہی مل جائے گی وہ تو فکرِ جادہ کیجیے

میں تو پھیلائے ہوئے بیٹھا ہوں دامانِ طلب

آپ بھی دستِ کرم اپنا کشادہ کیجیے

کوئی گر پوچھے کہ دو ختمِ شہادت کی مثال

سامنے ختم الرسل کا خانوادہ کیجیے

تا لحد پہنچا دیا شانہ بہ شانہ اے نظرؔ

اب سفر اگلا اکیلے پا پیادہ کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]