لذتِ کام و دہن سے ماورا مقصود ہے

ائے جنوں ، ایسا بھی کوئی ذائقہ موجود ہے؟

ایک پروازِ تخیل کا نہ ہو گر آسرا

تو فقط حدِ نظر تک آسماں محدود ہے

خاک کیا آب و ہوا کا جزو ٹھہری ہے کبھی؟

سو یہ پروازیں عبث ہیں ، ڈوبنا بے سود ہے

اس قدر الجھے ہیں باہم عمر کے ریشے یہاں

شب گزیدہ ہے سحر تو شب سحر آلود ہے

عشق کو درپیش فانی جسم کی بے چارگی

شوقِ آتش زیرِ پاء ، یہ راہ بھی مسدود ہے

نرگسیت کا وہ عالم ہے کہ آشفتہ سری

آپ سجدہ ریز ہے اور آپ ہی مسجود ہے

رنگ اڑ جاتا وگرنہ آج تیرے روبرو

وہ تو وحشت کا بھلا ہو رنگ ہی مفقود ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]