لَو مدینے کی تجلّی سے لگائے ہوئے ہیں

دل کو ہم مطلعِ انوار بنائے ہوئے ہیں

کشتیاں اپنی کنارے سے لگائے ہوئے ہیں

کیا وہ ڈوبے جو محمد کے ترائے ہوئے ہیں

شرم عصیاں سے نہیں سامنے جایا جاتا

یہ بھی کیا کم ہے تیرے شہر میں آئے ہوئے ہیں

اک جھلک آج دکھا گنبدِ خضرا کے مکیں

کچھ بھی ہے دور سے دیدار کو آئے ہوئے ہیں

حاضر و ناظر، نور و بشر غیب کو چھوڑ

شکر کر وہ تیرے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں

نام آتے ہی ابوبکر و عمر کا لب پر

کیوں بگڑتا ہے وہ پہلو میں سلائے ہوئے ہیں

قبر کی نیند سے اُٹھنا کوئی آسان نہ تھا

ہم تو محشر میں انہیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں

کیوں نہ پلڑا تیرے اعمال کا بھاری ہو نصیرؔ

اب تو میزان پر سرکار بھی آئے ہوئے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]