لِلّہ الحمد کہ ہم نے اسے چاہا آہا

جس کے ہر وصف کو خالق نے سراہا آہا

چودھویں رات کا چاند ان کو کہا ہے رب نے

از روئے علمِ عَدَد دیکھیے ! ” طٰہٰ ” آہا

نامہ چمکا بہ ثنائے رخِ مہرِ طیبہ

دھل گیا مدحتِ گیسو سے سیاہا آہا

تیرا دربار ہے دربارِ خدا ، اس پہ دلیل

حکمِ جاؤوک ہے کونین پناہا آہا !

چاند پر داغ ہیں ، خور گرم ہے ، لیکن تیرا

چہرہ ہے صاف خنک مہر کُلاہا ! آہا

مصدرِ کل ہے ترا نور ، عوالم مشتق

مرجعِ کُل تِرا دربار ہے شاہا آہا

اِسمِ اعظم ہے تِرا کنجیِ قفلِ مقصود

یادِ جاں بخش تِری ردّ بلاہا آہا

نُصرتِ رحمت ِ عالم وہاں دم میں پہنچی

امّتی جب بھی کسی جا سے کراہا آہا

یادِ گیسو میں لبِ شام پہ "واللیل ” کا وِرد

صبح پھوٹی ہے بہ تذکارِ ” ضُحٰھا ” آہا

ہم سے عاصی تو خطاؤں پہ بھی مجرم رہے

پِھر بھی آقا نے تعلّق کو نباہا آہا

آج محفل میں سخن ہائے معظمؔ سن کر

سارے یارانِ ثنا بول اٹھے آہا آہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]