لکھتا ہوں محمدت کہ خدا دستگیر ہے

مولائے بندگاں ہے وہ نعم النصیر ہے

ختم الرسل ہے اہلِ جہاں کو نذیر ہے

اللہ کا نبی ہے بشر ہے بشیر ہے

محبوبِ ذاتِ حق ہے وہ روشن ضمیر ہے

نورِ ہدیٰ ہے اور سراجِ منیر ہے

کمخواب ہے نہ تن پہ لباسِ حریر ہے

کملی میں مست وہ شہِ گردوں سریر ہے

وہ فرق تا قدم ہے مطافِ کمالِ حسن

خلقِ عظیم اس کا کتابِ منیر ہے

رکھتا نہیں وہ کچھ بھی بجز قُوتِ لا یموت

اس کی غذا کھجور ہے نانِ شعیر ہے

روشن نقوشِ پا سے ہے ہر منزلِ حیات

مامون گمرہی سے ہر اک راہ گیر ہے

وہ افصح العرب ہے کلام اس کا مرحبا

واضح، بلیغ اور عدیم النظیر ہے

پروانہ ہائے شمع رسالت ہیں خوش نصیب

ان میں ہر ایک فائزِ فوزِ کبیر ہے

ہے مرجعِ انام کہ محبوبِ رب ہے وہ

آقائے خاص و عام و غریب و امیر ہے

دیدارِ روضۂ نبوی کو رواں دواں

اطرافِ روزگار سے جمِ غفیر ہے

ہر فکرِ اخروی سے وہ آزاد ہے نظرؔ

جو زلفِ تابدار کا ان کی اسیر ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]