لگاؤں ورثہ ء غم اس کے نام ، حاضر ہو

جسے عزیز ہے شہرت دوام حاضر ہو

کچھ ایسے ہجر میرے گھر طواف کرتا ہے

کہ جیسے شاہ کے آگے غلام حاضر ہو

یہ قسط وار ہیں جو غم مجھے قبول نہیں

مرے نصیب کا اب دکھ تمام حاضر ہو

تو پورا شہر آجائے گا گنگناتا ہوا

صدا لگاؤں گی اک خوش کلام حاضر ہو

میں تخت و تاج کا دربان ڈھونڈتی ہوں بس

جو اپنے کام سے رکھتا ہو کام ، حاضر ہو

اور اپنی سلطنت میں رہ گئی اکیلی میں

بس ایک یاد ہے جو صبح و شام حاضر ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]