لہروں پہ سفینہ جو مرا ڈول رہا ہے

شاید مری ہمت کو بھنور تول رہا ہے

شیریں ہے تری یاد مگر ہجر لہو میں

شوریدہ ہواؤں کا نمک گھول رہا ہے

پتوار بنا کر مجھے طوفانِ حوادث

قامت مری پرچم کی طرح کھول رہا ہے

ساحل کی صدا ہے کہ سمندر کا بلاوا

گہرائی میں سیپی کی کوئی بول رہا ہے

یہ وقت مجھے موتی بنائے گا کہ مٹی؟!

اک آبِ رواں ہے کہ مجھے رول رہا ہے

کھُلتے نہیں کردار کہ ہیرو یا ولن ہیں

اپنی تو کہانی میں یہی جھول رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]