مآلِ سوزِ عشقِ نہاں صرف راکھ ہے

اب یادگارِ شہرِ بتاں صرف راکھ ہے

وہ لو کہ جو رہی تھی رگِ جان کھو چکی

ہم لوگ ہیں وہاں پہ جہاں صرف راکھ ہے

تھی حدتوں کی کھوج بِنائے مسافرت

پر زیرِ پائے عمرِ رواں صرف راکھ ہے

شعلوں کے ساتھ رقص کرو جان توڑ کر

ان گردشوں کے بعد میاں صرف راکھ ہے

ہے رونقِ گمان ترا آتشیں بدن

لیکن پسِ غبارِ گماں صرف راکھ ہے

تاخیر سے ملا ہے یہ آتش کدہ تمہیں

ائے تازہ واردان یہاں صرف راکھ ہے

اب تیرے ناخنوں کو بھلا کیا کرید ہے

کچھ راکھ میں نہیں ہے نہاں صرف راکھ ہے

معراج پا چکا ہے وہ آتش پرست کیا

دل کا نہیں ہے نام و نشاں صرف راکھ ہے

ناصر گرے ابھی ہیں یقیں کے شہابیے

دوشِ ہوا پہ رقص کناں صرف راکھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]