ماحول خوابناک ، نہ ہی وقت شب کا تھا

اس وقت تیز دھوپ تھی یہ خواب جب کا تھا

کوئی نہ تھا کمال ، تمہارے فقیر میں

بس خانماں خراب کا لہجہ غضب کا تھا

دہلیز پر نثار کیا ، تاج دار سر

وہ حسن مستحق ہی نیاز و ادب کا تھا

جس کو سخن کے سحر نے خاموش کر دیا

یہ جادوئی کلام اسی جاں بلب کا تھا

تھے دس ارب نفوس ہی روئے زمین پر

سو مجھ سے اختلاف بھی دس ہی ارب کا تھا

سینے پہ اک ہوا نے ہی جھیلے شہابیے

یوں آب و گِل سے عشق کا دعوی تو سب کا تھا

آخر اتر گیا مرے حرفوں کی شاخ پر

جانے ہوا کے دوش پہ یہ شعر کب کا تھا

تیری تمام عمر سے پہلے بھی جنگ تھی

سینے کے عین وسط میں یہ چھید تب کا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]