ماں کے دامن کی طرح پھیلا ہے خالی آنگن

گھر کی دہلیز پہ بیٹھا ہے سوالی آنگن

لمس باقی نہ رہے پھول کھلانے والے

منتظر ہے لئے سوکھی ہوئی ڈالی آنگن

گھر کے دامن سے تو ملتے ہیں کئی گل کئی خار

صرف افسانوں میں ہوتے ہیں مثالی آنگن

وسعتیں دیتا ہے کتنی مرے چھوٹے گھر کو

دل میں آباد ہے اب تک جو خیالی آنگن

وہ بلاتا ہے مجھے اُس کا کرم ہے ورنہ

میں کہاں اور کہاں کعبے کا عالی آنگن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]