متاعِ جان ، تجھی سے بگاڑ بیٹھے ہیں

جنوں میں شہرِ محبت اُجاڑ بیٹھے ہیں

بتا فنونِ حرب کی نئی کوئی تکنیک

مرے حریف مری لے کے آڑ بیٹھے ہیں

یقین ہے کہ سلامت ہے درد کی چادر

گمان ہے کہ گریبان پھاڑ بیٹھے ہیں

عذابِ ترکِ تمنا میں صرف دامن کیا

ترے فقیر ترا عشق جھاڑ بیٹھے ہیں

کہیں گے تازہ غزل تجھ پہ دیکھنا اک دن

قلم کی نوک اگر دل میں گاڑ بیٹھے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]