مثالِ ریگ مٹھی سے پھسلتا جا رہا ہوں

ظفر لوگوں کے جیون سے نکلتا جا رہا ہوں

بہت آساں بہت جلدی سفر ڈھلوان کا ہے

سو پتھر کی طرح پگ پگ اچھلتا جا رہا ہوں

کھنچا جاتا ہوں یوں اگلے پڑاو کی کشش میں

تھکن سے چور ہوں میں پھر بھی چلتا جا رہا ہوں

ہنر اس کھوکھلی دنیا میں جینے کا یہی ہے

برنگ آب ہر سانچے میں ڈھلتا جا رہا ہوں

کبھی محفل سے اٹھ آتا تھا اک ترچھی نظر پر

اور اب نفرت کی ہر پڑیا نگلتا جا رہا ہوں

ادا کرنے لگا ہوں روشنی کرنے کی قیمت

برابر جل رہا ہوں اور پگھلتا جا رہا ہوں

پرانے ذائقوں میں فرق سا کچھ آ گیا ہے

میں اپنا ذوق بھی کچھ کچھ بدلتا جا رہا ہوں

میں کس معیار سے اپنا مآل کار پرکھوں

بگڑ کر رہ گیا ہوں یا سنبھلتا جا رہا ہوں

ظفر بار ثمر سے جھک گیا ہوں میں زمین پر

جہاں والے سمجھتے ہیں سپھلتا جا رہا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]