مثل آئینۂ حیراں نظر آیا ہو گا
جس نے اللہ کے محبوب کو دیکھا ہو گا
منزل اوج پہ قسمت کا ستارا ہو گا
جس گھڑی گنبد خضرا کا نظارا ہو گا
غیر بھی دیکھ کے کہتے تھے نبی کا بچپن
تا ابد اس کا ہم انداز نہ پیدا ہو گا
ہر طرف پھیل گئی شمع نبوت کی ضیا
اب کہیں بھی نہ زمانے میں اندھیرا ہو گا
دشمن و دوست سبھی پر ہے نوازش یکساں
کون سرکار سا اخلاق سراپا ہو گا
مجھ کو خورشید قیامت کا نہیں خوف کوئی
دامن احمد مختار کا سایا ہو گا
جس کو بیمار نبی کہتی ہے دنیا سرورؔ
وہ تو خود اپنی جگہ ایک مسیحا ہو گا