مجھے برساتِ رحمت میں وہ جینا یاد آتا ہے

مدینے کی طرف جاتا سفینہ یاد آتا ہے

مرے اشکوں کی صورت میں پگھلتا ہےمرا دل بھی

تصور میں مجھے جس پل مدینہ یاد آتا ہے

میں سونگھوں جب کوئی خوشبو وہ عنبر ہو کہ چنبیلی

مجھے اپنے نبی کا ہی پسینہ یاد آتا ہے

مری نظریں کبھی دیکھیں کہیں کوئی حسیں منظر

مجھے ختمِ نبوت کا نگینہ یاد آتا ہے

احد، خیبر مرے آقا کی سیرت کے ہی پہلو ہیں

ملا پتھروں سے خندق میں وہ سینہ یاد آتا ہے

جو پتھر کھا کے طائف میں ہدایت کی دعا مانگے

صفا قلبی کا ایسا آبگینہ یاد آتا ہے

میں رسموں میں گری امت کو دیکھوں جب تڑپتا ہوں

مجھے رہ رہ کے آقا کا قرینہ یاد آتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]