مجھے دو اِذن کہ میں ایسا انتخاب لکھوں
مدینے پاک کے ذرّوں کو آفتاب لکھوں
وہ باغِ طیبہ کے گل کی تو بات کیا کہنے!
وہاں کے خاروں کو بھی خلد کے گلاب لکھوں
جنہوں نے تھاما ہے دامن حضور کا لوگو!
اُنہیں نصیب کے میداں میں کامیاب لکھوں
مری ہے آرزو مولا کہ اُن کی مدحت کے
اُنہی کے عشق میں میں عشق کے ہی باب لکھوں
کبھی بلائے جو قسمت مجھے مدینے میں
تو اُن کے شہر کی ہر شے کی آب و تاب لکھوں
یہ جستجو ہے رضاؔ کی جب آئے وقت ایسا
میں اپنی جان کو بھی نذرِ آنجناب لکھوں