مجھے نہ باپ کی نازوں پلی کہا جائے

ہے کرب ایسا کہ جنموں جلی کہا جائے

ملا تھا باغ میں کچھ دن قیام کا موقع

لہذا شاخ سے ٹوٹی کلی کہا جائے

فقط گناہ ہیں منسوب ہم سے ، باقی لوگ

وہ پارسا ہیں کہ ان کو ولی کہا جائے

یہاں پہ رہتا ہے قدرت کا اک حسیں شہکار

تری گلی کو بھی نتھیا گلی کہا جائے

وہ شخص میٹھا ہے اتنا کہ اب یہ خواہش ہے

بلانا ہو تو بس گڑ کی ڈلی کہا جائے

ہمیں جو عشق ہے سادات کی طرح ان سے

ہمیں بھی عاشق مولا علی کہا جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]