مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا

مجھ سا ناچیز درِ شاہِ امم تک پہنچا

ماہ و انجم بھی ہیں جس نقشِ قدم سے روشن

اے خوشا آج میں اس نقشِ قدم تک پہنچا

کتنے خوش بخت ہیں ہم لوگ کہ وہ ماہِ تمام

اس اندھیرے میں ہمیں ڈھونڈ کے ہم تک پہنچا

(قربان یارسول اللہ آپ کی اس کمالِ کرم نوازی پر)

اس کو کیا کہتے ہیں اربابِ خرد سے پوچھو

کیسے اک امی لقب لوح و قلم تک پہنچا

راز اس اشکِ ندامت کا کوئی کیا جانے

آنکھ سے چل کے جو دامانِ کرم تک پہنچا

نعت کہنے کو قلم جب بھی اٹھایا اقبال

قطرہء خونِ جگر نوکِ قلم تک پہنچا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]