مجھ کو درونِ ذات کا نقشہ دکھائی دے

آئینہ وہ دکھاؤ کہ چہرہ دکھائی دے

آدابِ تشنگی نے سکھائے ہیں وہ ہنر

پیاسے کو مشتِ خاک میں کوزہ دکھائی دے

ایسی رہی ہیں نسبتیں دیوارِ یار سے

کوئے ستم کی دھوپ بھی سایا دکھائی دے

ہر لب پہ حرفِ وعظ و نصیحت ہے شہر میں

ہر شخص آسمان سے اُترا دکھائی دے

افشاں کسی کسی میں ہی انوارِ فیض ہے

ویسے تو ہرچراغ ہی جلتا دکھائی دے

اُن کے ورق ورق پہ ہے نامِ خدا رقم

جن کی کتابِ زندگی سادہ دکھائی دے

تمثیل گاہ وقت میں بیٹھے ہیں منتظر

پردہ اُٹھے تو کوئی تماشا دکھائی دے

دنیا فریب زارِ نظر ہے عجب ظہیرؔ

آنکھیں نہ ہوں تو خاک بھی سونا دکھائی دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]