محبت کا وہ بحرِ بیکراں ہیں

وہی اوّل، نبی آخر زماں ہیں

اندھیروں میں وہی مینارۂ نور

اُنھی کے نور سے روشن جہاں ہیں

وہی ہیں راہبر سب رہبروں کے

وہی قبلہ نمائے گمرہاں ہیں

وہی ہیں کارسازِ درد منداں

وہی چارہ گرِ بے چارگاں ہیں

وہی عقدہ کشا، حاجت روا بھی

وہی مشکل کشائے بے کساں ہیں

وہی ہیں راحتِ جاں عاشقوں کے

مسیحائے ہمہ خستہ دِلاں ہیں

کرم فرما ہیں جو اغیار پر بھی

ظفرؔ! وہ دوست دارِ دُشمناں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]