محسنہ

تمہیں محبت کی پیاس تھی نا؟
سو تم نے میرے سخن کی موجوں پہ دھر دیے لب
تمہیں بھی عہدِ ریاء میں تسکین کی طلب تھی
سو کر لیا اختیار تم نے جنوں کا مذہب
تمہیں ستائش کی آرزو تھی
سو تم نے میری نگاہِ بے باک پہ لبادے ہٹا دیے ہیں
تمہاری بے کیف خوبروئی نے ، ذائقے کو
زباں پہ میرے نمک کے ذرے سجا لیے ہیں
تمہاری رمز آشکار ہونے کی منتظر تھی
سو تم نے بین السطورِ اشعار سُن لیا ہے
تمہارے قدموں نے خود کو سجدہ گہِ محبت قرار دے کر
مرے جنوں کے فراخ ماتھے کو چُن لیا ہے
تمہیں اجالوں کی جستجو تھی
سو تم نے میری نظر کی مشعل پہ اپنے چہرے کی آگ رکھی
تمہیں خود اپنی ہی رونقوں کے تمام رنگوں کو دیکھنا تھا
سو تم نے میرے قلم کے آگے نسائیت بھی تیاگ رکھی
تمہاری حسرت تھی خودنمائی
سو تم نے میرے یہ سن رسیدہ فنونِ مدح و ثناء چُنے ہیں
مرے جنوں کی سلائیوں سے ، تمہاری نوخیز سادگی نے
وفا کے ریشہِ نرم و نازک سے خواب کے پارچے بُنے ہیں
تمہیں تمنائے رنگ و بُو تھی
سو تم نے اپنے کنوار پن کی نفیس شبنم سے میرے حرفوں کے پھول سینچے
تمہیں خود اپنا ہی عکس سطحِ خیالِ شاعر پہ دیکھنا تھا
سو تم نے میری بکھرتی سوچوں کے گرد اپنی طمانیت کے حصار کھینچے
تمہاری خواہش دوام تھی نا؟
سو تم نے میری گریز کرتی حیات کے شور و غُل کو ابدی سکوت بخشا
میں جب وجود و عدم کے مابین ، بے یقینی کی دھند میں تھا
تو تم نے میرے لبوں کو اپنے لبوں سے چھو کر مجھے بقاء کا ثبوت بخشا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]