محوِ دیدارِ بتاں تھے پہلے

ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے

خود بھی خود پر نہ عیاں تھے پہلے

وہ بھی آئے ہی کہاں تھے پہلے

اتنے کب شعلہ بجاں تھے پہلے

ہم کو غم اتنے کہاں تھے پہلے

دور تر ہم سے ہوئی ہے منزل

اب وہاں کب کہ جہاں تھے پہلے

اب تو ہیں خود ہی معمہ ہم لوگ

کاشفِ سرِّ نہاں تھے پہلے

اپنی منزل پہ کبھی تھے فائز

ہم کہ باعزم جواں تھے پہلے

مر کے بےنام و نشاں ہونا ہے

جیسے بےنام و نشاں تھے پہلے

اب ہیں خاموش نظرؔ اتنے ہی

جس قدر شعلہ بیاں تھے پہلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]