مدت کے بعد منہ سے لگی ہے جو چھوٹ کر

تو یہ بھی مے پہ گرتی ہے کیا ٹوٹ ٹوٹ کر

مہندی تھا میرا خون کہ ہوتا جو رائیگاں

اک شب کے بعد ہاتھ سے قاتل کے چھوٹ کر

پہلا ہی دن تھا ہم کو کیے ترک مے کشی

کیا کیا پڑا ہے رات کو مینہ ٹوٹ ٹوٹ کر

صبر و قرار لے کے دیا داغ آرزو

آباد تم نے دل کو کیا مجھ کو لوٹ کر

حیرت ہے میرے اختر بخت سیاہ کو

کیوں کر گہن سے چاند نکلتا ہے چھوٹ کر

اللہ رے آنسوؤں کا کھٹکنا فراق میں

آنکھوں میں بھر گیا کوئی الماس کوٹ کر

ٹپکے نہیں قلم کے فقط اشک نامہ پر

وہ کچھ لکھا کہ روئی سیاہی بھی پھوٹ کر

کر بند و بست ابھی سے نہ گلشن میں باغباں

وہ دن تو ہو کہ مرغ قفس آئیں چھوٹ کر

صد حیف سرگذشت جو اپنی کہی جلالؔ

تو اس کو داستان سمجھ سچ کو جھوٹ کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]