مدفون مقابر پہ تحاریر کی صورت

ہم یاد بھی ہوں گے تو اساطیر کی صورت

ہم اہلِ قلم ، اہلِ سخن ، اہلِ زباں لوگ

خاموش ہوئے جاتے ہیں تصویر کی صورت

تھک ہار گئے چور ہوئے خواب تھکن سے

ممکن ہی نہیں تھی کوئی تعبیر کی صورت

شکوہ تو نہیں خیر مگر یوں ہے کہ دل میں

اک بات ترازو ہے کسی تیر کی صورت

وہ قحط پڑا شہرِ لطافت میں کہ آخر

رانجھوں کو فراموش ہوئی ہیر کی صورت

ہے یاد اگر کچھ تو وہ چابک کی صدا ہے

دیکھی تھی کہاں مڑ کے عناں گیر کی صورت

خیرہ ہوئی آنکھیں ہیں کہ حیرت سے پھٹی ہیں

عریاں ہوا جاتا ہے وہ شمشیر کی صورت

جگنو ہے کہاں رات کی وحشت کا مداوا

بنتی ہے کہاں آہ سے تاثیر کی صورت

رکھا ہے خرابے کو بہت سینت کے ناصر

جاتی ہی نہیں آنکھ سے تعمیر کی صورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]