مدینہ چھوڑ کے جانا ہے ایک بے کس کو

حضور ! اس کی تشفی کاکچھ تو ساماں ہو

کہا یہ آنکھ سے پھر آج قلبِ مضطر نے

زمینِ طیبہ میں پھر آنسوؤں کے بیج ہی بو

ادب نے آہ و بکا پر لگائی ہے قد غن

مگر ہے دل کا تقاضا کہ پھوٹ پھوٹ کے رو

تمام عمر کی چادر پہ داغِ عصیاں ہیں

درِ نبی پہ اِنہیں اشکِ انفعال سے دھو

دوبارہ آنے کی درخواست پر ملے مژدہ

’’قبول کر لی تمہاری یہ التماس بھی لو‘‘

لحد میں مدحِ نبی لب پہ میرے جب آئے

ملائکہ بھی کہیں، حشر تک سکون سے سو

تقاضۂ دلِ مضطر یہ وقتِ رخصت ہے

کہ حال لکھنے سے پہلے قلم لہو میں ڈبو

دوبارہ آنے کی خاطر ہی تجھ کو جانا ہے

درِ نبی پہ یہ پیغام کوئی دے اب تو

پہنچ گئے ہو جو قسمت سے اُن کے روضے پر

تو پھر حضور سے احوالِ دل بھی عرض کرو

عزیزؔ! بارِ دگر حاضری یقینی ہے

نبی کے در سے بچھڑنے پہ اعتماد نہ کھو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]