مرا یہ ذہن بھی فکرِ رسا بھی تیری ہے

اور اس کی روشنی پُر ضیا بھی تیری ہے

ہیں بے شمار ستارے سجے ہوئے اس میں

یہ آسمان کی نیلی رِدا بھی تیری ہے

بھٹک رہا تھا اندھیروں میں آدمی ، یارب

ترے نبی نے جو بخشی ضیاء بھی تیری ہے

ترے حبیب پہ بھیجیں درود کے تحفے

یہ حکم بھی ہے ترا اور رضا بھی تیری ہے

یہ پھول کلیاں یہ بھنورے یہ گلستاں تیرے

یہ دھوپ چھاؤں پہ مہکی فضا بھی تیری ہے

یتیموں اور غریبوں کی تُو ہی سنتا ہے

جو ان کے لب پہ ہے یارب دعا بھی تیری ہے

سوا ہے تیری محبت ہر ایک بندے سے

کتاب بھی ہے تری اور صدا بھی تیری ہے

جو لا علاج مریض اس جہاں میں ہیں ان کو

ہے تیرا نام ہی کافی دوا بھی تیری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]