مری سرکار کا جلوہ عیاں ہے

سرور و کیف و مستی کا سماں ہے

چلو چلتے ہیں دربارِ نبی میں

خُدا کا فضل بے پایاں وہاں ہے

ملے گی اُن کے در سے رہنمائی

نہیں تشکیک نہ کوئی گماں ہے

ہے اُن کا در پناہ گاہِ غریباں

فقیروں کے لیے دارالاماں ہے

جھُکاتا ہوں میں سر آقا کے در پر

جہاں آباد اِک تازہ جہاں ہے

یہاں پر وہ سکوں، وہ دِلکشی ہے

مرے آقا کا گھر، باغِ جناں ہے

ظفرؔ جھکتا ہے اُن کے آستاں پر

نہیں پھر ہوش رہتا ہے کہاں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]