مری نظر میں تری آرزو نظر آئے
مجھے وہ آنکھ عطا کر کہ تو نظر آئے
کلام اپنا سمو دے وجود میں ایسا
کہ میری چپ میں تری گفتگو نظر آئے
میں جب بھی آئنہ دیکھوں غرورِ ہستی کا
تو ایک عکسِ عدم روبرو نظر آئے
ہٹا دے آنکھ سے میری یہ خواہشات کے رنگ
جو چیز جیسی ہے بس ہوبہو نظر آئے
ہجوم شہر تماشہ میں گم نہ ہو رستہ
نشان راہ ترا کوبکو نظر آئے
رواں دواں رہے جب تک مرا سفینۂ جاں
منارِ نور ہدیٰ چار سو نظر آئے
خلوصِ فکر عطا کر اور ایسا حسنِ عمل
کہ فکرِ دنیا تری جستجو نظر آئے