مری کہانی میں کردار بھی اسی کا تھا

سہا جو میں نے وہ آزار بھی اسی کا تھا

وہ جس کو ہونے کا احساس بھی دیا ہم نے

ہماری ذات سے انکار بھی اسی کا تھا

وہ ایک عہد بھی ہم سے وفا نہ کر پایا

مگر یہ دل کہ وفا دار بھی اسی کا تھا

بچھڑ گیا ہے تو اب دھوپ بھی ستاتی ہے

کھلا کہ سایہ ء دیوار بھی اسی کا تھا

گزر گئے یونہی محروم ِ مدعا ہم لوگ

گلی بھی اس کی تھی بازار بھی اسی کا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]