مرے لیے بھی رعایت تو ہو نہیں سکتی
کہ اب دوبارہ محبت تو ہو نہیں سکتی
جہاں پہ تیز ہواؤں کی حکمرانی ہو
وہاں چراغوں کی عزت تو ہو نہیں سکتی
تمھارے عشق میںباندھی ہے دھڑکنوں کی لے
اب اس سے بڑھ کے ریاضت تو ہو نہیں سکتی
اگر ہے عشق تو صحرا میں آپ آ جائیں
حضور شہر میں وحشت تو ہو نہیں سکتی
تجھے بھی ہم سے محبت ہے، برملا کہہ دو
کہ یارایسے مروت تو ہو نہیں سکتی
کچھ اس لیے بھی وفا تجھ سے چاہتے نہیں ہم
ہمارے جذبوں کی قیمت تو ہو نہیں سکتی
سمجھ سکو تو سمجھ لوہماری آنکھوں کو
اب اور ہم سے وضاحت تو ہو نہیں سکتی
خیال غیب سے آئے کہ قلب وجاں سے اٹھے
غزل بنانے میں عجلت تو ہو نہیں سکتی