مرے لیے بھی رعایت تو ہو نہیں سکتی

کہ اب دوبارہ محبت تو ہو نہیں سکتی

جہاں پہ تیز ہواؤں کی حکمرانی ہو

وہاں چراغوں کی عزت تو ہو نہیں سکتی

تمھارے عشق میںباندھی ہے دھڑکنوں کی لے

اب اس سے بڑھ کے ریاضت تو ہو نہیں سکتی

اگر ہے عشق تو صحرا میں آپ آ جائیں

حضور شہر میں وحشت تو ہو نہیں سکتی

تجھے بھی ہم سے محبت ہے، برملا کہہ دو

کہ یارایسے مروت تو ہو نہیں سکتی

کچھ اس لیے بھی وفا تجھ سے چاہتے نہیں ہم

ہمارے جذبوں کی قیمت تو ہو نہیں سکتی

سمجھ سکو تو سمجھ لوہماری آنکھوں کو

اب اور ہم سے وضاحت تو ہو نہیں سکتی

خیال غیب سے آئے کہ قلب وجاں سے اٹھے

غزل بنانے میں عجلت تو ہو نہیں سکتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]