مسلسل ذہن میں ہوئی غارت گری کیا ہے

سخنور گر یہی فن ہے تو پھر دیوانگی کیا ہے

جنون و کرب میں اوہام کو الہام کہتا ہوں

فقط خفقان کا عالم ہے ورنہ شاعری کیا ہے

سخن کیا ہے؟ مہذب نام ہے بکواس کرنے کا

معزز طرزِ دریوزہ گری ہے، زندگی کیا ہے

تخیل ہے کہ عریاں عالمِ وحشت میں پھرتا ہے

اگر یہ شعر ہیں ، الفاظ کی عصمت دری کیا ہے

محبت ایک پردہ ہے ہوس کی شرمگاہوں پر

اگر پرکار چالاکی نہیں تو سادگی کیا ہے

وفا اک اسمِ مترادف نہیں ہے کیا تسلط کا

غلامی کی نہیں صورت تو پھر وابستگی کیا ہے

فقط اک عامیانہ لطف ہے گھٹیا نمائش کا

عجب تخریب ہے یارو فنِ تخلیق بھی کیا ہے

جنوں تاراج کر دیتا ہے ہر نقشِ ملاحت کو

مقابل وحشتیں ہوں تو محبت بیچتی کیا ہے

یہ سب عالی بیانی کیا ہے؟ بس اوہام ہیں ناصر

سرِ بازار پر ، اوہام کی اوقات ہی کیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]