مشک و عنبر چار سُو ، انوار بھی

خوبصورت ہیں در و دیوار بھی

اُن کے قدموں میں ٹھکانہ مل گیا

’’بے گھری کے مٹ گئے آثار بھی‘‘

ارضِ بطحا ، مرحبا ، صد مرحبا !

پُھول بن جاتے ہیں اس جا خار بھی

ارضِ بطحا ، ہے سبھی جنت نشاں

رہگزر بھی ، کُوچہ و بازار بھی

شاہِ والا کے مراتب دیکھ کر

عقل کی گرنے لگی دستار بھی

جس جگہ جا کر نبی بیٹھے رہے

اب تلک مہکی ہوئی ہے غار بھی

نامِ نامی آپ کا ، میرے لئے

ہے سفینہ ، بادباں ، پتوار بھی

میرے آقا کے جو ہیں سچے غُلام

با وفا ہیں ، صاحبِ کردار بھی

صاحبانِ سیف بھی ہیں ساتھ ساتھ

ہے بلا کی جرأتِ للکار بھی

اِس جلیلِ بے نوا کے ، آپ ہیں

چارہ گر بھی،مُونس و غمخوار بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]