مضمون ِ محبت کے شمارے میں پڑھا ہے

مضمون محبت کے شمارے میں پڑھا ہے

اک ورد مسلسل جو خسارے میں پڑھا ہے

کنکر سے ابابیل گرا دیتے ہیں ہاتھی

میں نے یہ ابھی تیسویں پارے میں پڑھا ہے

یہ رسمی تعارف بھی ضروری تھا مگر دوست

پہلے بھی کہیں آپ کے بارے میں پڑھا ہے

حیرت ہے کہ ہم چار برس مل نہیں پائے

دونوں نے اگر ایک ادارے میں پڑھا ہے

آواز اٹھانے سے بھی سنتا نہیں کوئی

میں نے یہ سبق آج اشارے میں پڑھا ہے

دن پھر سے گذرنا نہیں اچھا ترا کومل

اخبار کے اک برج ستارے میں پڑھا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]