مطلعِ نعت ہے سب زورِ بیاں ہے خاموش

دل دھڑکتا ہی نہیں اور زباں ہے خاموش

نامۂ زیست خسارہ ہی خسارہ تھا مگر

روبرو آپ کے ہر ایک زیاں ہے خاموش

جوشِ رحمت ہے نرالا سرِ محشر ان کا

جائے وحشت میں جہاں جسمِ اماں ہے خاموش

جب سے دیکھا ہے ترے گنبدِ اخضر کو شہا

آنکھ پتھرا سی گئی سارا سماں ہے خاموش

غرفۂ ہجر میں ہو نور کی بارش آقا

ساتھ میرے یہ مرا ہجر مکاں ہے خاموش

نوری پیزاروں تلے آ کے فروزاں جو ہوئی

دیکھ کر خاکِ حرم فرشِ جناں ہے خاموش

اڑتا پھرتا تھا یہ دل برگِ بریدہ کی طرح

مزرعِ دل پہ کھلی نعت خزاں ہے خاموش

مدحتِ حسنِ مکمل میں قلم خم ہے مرا

نعت کہنے سے ہی یہ قلبِ تپاں ہے خاموش

بابِ مدحت پہ یہ منظرؔ ہے کھڑا کاسہ بکف

سر خمیدہ یہ ترا عرض کناں ہے خاموش

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]