مظہر حسنِ یقیں ہیں سیدی نواب شاہ

جلوۂ نور مبیں ہیں سیدی نواب شاہ

عقل کی فطرت میں شامل ہی نہیں ہے فیصلہ

دل یہ کہتا ہے یہیں ہیں سیدی نواب شاہ

معتقد ہونا پڑا مجھ کو نگاہ شوق کا

جس جگہ دیکھا وہیں ہیں سیدی نواب شاہ

ہو گئیں خیرہ نگاہیں دیکھ کر حسن و جمال

چاند تاروں سے حسیں ہیں سیدی نواب شاہ

مطمئن ہے منزلوں سے آپ کا اک اک غلام

رہبر دنیا و دیں ہیں سیدی نواب شاہ

اب بہکنے اور بھٹکنے کا نہیں اٹھتا سوال

ہم سے غافل تو نہیں ہیں سیدی نواب شاہ

جسکو جو چاہیں عطا کرتے ہیں دست فیض سے

رحمت حق سے قریں ہیں سیدی نواب شاہ

گوہر مقصود سے بھرتے ہیں سب کی جھولیاں

غم کے ماروں کے معیں ہیں سیدی نواب شاہ

انکے در پر ہی جبین شوق جھکتی ہے مری

میرا ایمان و یقیں ہیں سیدی نواب شاہ

جس کو دیکھو کہہ رہا ہے وہ زبانِ حال سے

ہاں امام العارفیں ہیں سیدی نواب شاہ

بقعۂ انوار ہے اے نورؔ یوں میرا وجود

چشم و دل میں جا گزیں ہیں سیدی نواب شاہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]