معرفت کے باب کا عنوان ہیں نواب شاہ

سالک و مجذوب کی پہچان ہیں نواب شاہ

عارفوں کی بزم کی اک شان ہیں نواب شاہ

عاشقوں کا دین اور ایمان ہیں نواب شاہ

واقف اسرار ھو ہیں آشنائے رمزِ حق

کشورِ لاھوت کے سلطان ہیں نواب شاہ

زندگی کا لمحہ لمحہ پرتو خلق عظیم

سنت سرکار کا عرفان ہیں نواب شاہ

اے امانت دارِ فضل اہل بیت مصطفےٰ

علم و حکمت آپ پر قربان ہیں نواب شاہ

دیکھ کر بخشش پہ بخشش دیکھ کر لطف و کرم

اہل عالم آج بھی حیران ہیں نواب شاہ

صرف اپنوں پر نہیں ہے بارشِ لطف و کرم

غیر پر بھی آپکے احسان ہیں نواب شاہ

انکے در کی بھیک سے ہوتی ہے کتنوں کی گزر

دہر میں اک مرکز فیضان ہیں نواب شاہ

ان سے ہٹ کر میری ہستی کا کوئی مطلب نہیں

میرے قلب و روح میری جان ہیں نواب شاہ

وقت کی سرکش ہوائیں بھی ہلا سکتی نہیں

صبر و استقلال کا ایوان ہیں نواب شاہ

اب کسی پہچان کی کوئی ضرورت ہی نہیں

دو جہاں میں نورؔ کی پہچان ہیں نواب شاہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]